Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر4

رات کافی دیر سے ثمر اور ہانیہ نانو کے گھر پہنچے تھے۔۔ شکر ہے تم لوگ آگئے۔۔ورنہ تو میں اتنی پریشان ہو رہی تھی۔۔۔نانو ان دونو سے باری باری ملتی کہہ رہی تھیں۔۔۔ بس نانو موسم آج کافی خراب ہوگیا اسلیے ورنہ تو آپ جانتی ہیں اتنا لمبا سفر تو نہیں ہے۔۔ثمر نے جواب دیا۔۔۔ وہی تو میں سوچ رہی تھی۔۔۔اس لیے وقت پر ہی ڈرائیور کو بھیج دیا۔۔۔آنے میں کوئی مسلہ تو نہیں ہوا نہ۔۔۔؟؟ نہیں نانو کوئی مسلہ نہیں ہوا۔۔۔بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔ثمر معصومیت سے بولا۔۔۔اور ہانیہ بس خاموشی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔ ہاں ہاں میں نے خانسامہ کو کہہ دیا تھاوہ کھانا لگا چکا ہوگا چلو چل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔نانو جانتی تھی ثمر کو ہر دو گھنٹے میں بھوک لگ جاتی ہے۔۔۔اسلیے انہوں نے ڈرائیور کو بھیجتے ہی خانسامہ سے کھانا لگانے کا کہہ دیا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد دونو فریش ہوکر نانو کے ساتھ کھانے کے ٹیبل پر بیٹھے تھے۔۔۔ واہ نانو آپ نے تو بہت کچھ بنا لیا۔۔۔اور وہ بھی سب میری پسند کا ثمر چہک کر بولا۔۔۔ میرے بچے آرہے تھے تو کیا نا بنواتی۔۔۔پتا ہے نہ مجھے تم لوگو سے کتنا پیار ہے میں تو چاہتی ہوں تم لوگ میرے پاس ہی رہو پر کیا کروں شنواری میری بات ہی نہیں مانتا ابھی بھی پتا اس نے نہیں ہانیہ کو کیسے بھیج دیا ۔۔۔نانو دکھ سے بولی۔۔۔ یہ بات سچ تھی وہ ان سے بہت پیار کرتی تھیں۔۔اور انہوں نے بہت بار پاکیزہ اور شنواری کو کہا تھا کہ ہانیہ اور ثمر کو یہاں پڑھنے کے لیے بھیج دیں۔۔۔لیکن وہ نہیں مانا۔۔۔اور وہ وجہ جانتی تھی کہ شنواری کیوں انکار کرتا ہے اسلیے وہ اس کے جواب پر خاموش ہو جاتیں۔۔۔ نانو آپ آج کل اکیلی ره رہی ہیں۔۔۔؟؟ہانیہ نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا۔۔۔ ارے نہیں میں اکیلی نہیں رہتی تمہیں پتا ہے نہ شازل میرے ساتھ رہتا ہے۔۔۔نانو نے آگاہ کیا۔۔۔ جی وہی تو پوچھ رہی تھی کہ وہ نظر نہیں آرہے آپ نے انھے بتایا نہیں تھا کہ ہم آرہے ہیں۔۔۔وہ میں کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے ہم کا لفظ استعمال کیا۔۔۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ تم آرہی ہو تو کہنے لگا کہ وہ اب کل آئے گا۔۔۔آج رات وہ آئمہ کے ساتھ گزارے گا۔۔۔بیچارہ میری وجہ سے اپنی ماں سے بھی نہیں ملنے جاپاتا۔۔۔ انکے جواب پر ہانیہ بامشکل ہی مسکرائی۔۔۔اس کے سب اندازے غلط ہوگئے۔۔۔اسے لگا تھا جب اسے پتا چلا گا کہ وہ آرہی ہے تو وہ خوشی سے کھل اٹھے گا۔۔۔وہ اسے خود لینے آئے گا۔۔۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا وہ تو اس سے ملنے بھی نہیں آیا۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔؟؟نانو نے اسے خالی پلیٹ میں چمچ گھوماتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔ انکی آواز پر ہانیہ چونکی۔۔۔کچھ نہیں نانو۔۔ تم کچھ لے کیوں نہیں رہی۔۔۔پلیٹ بھی خالی ہے۔۔۔بریانی تو لونہ۔۔۔ نانو مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔مجھے نیند آرہی ہے میں جاؤں۔۔۔؟؟ ہمم جاؤ۔۔۔نانو نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔ ہانیہ خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔ نانو ویسے پتا نہیں لوگو کو اتنا اچھا کھانا دیکھ کر بھی بھوک نہیں لگتی۔۔۔اور ایک میں ہوں جسے انتظار ہوتا ہے بس کچھ کھانے کو مل جاۓ۔۔۔ اور نانو اس کی بات پر ہنس دی۔۔۔


اگلی شام تک ثمر جا چکا تھا اسکا دل تھا کہ وہ نانو کے گھر ایک دو تین اور رہے پر شنواری صاحب نے اسے سختی سے مانا کیا تھا کہ وہ وہاں ایک دن بھی اوپر نہیں رہے گا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت ڈرتا تھا۔۔۔اور نانو نے بھی اسے مزید روکنے پر اصرار نہیں کیا۔۔۔ نانو میری اکیڈمی کا پتا کیا آپ نے اور اسکا سارا پراسیس کا بھی۔۔۔؟؟ہانیہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔ ہاں میں نے شازل سے کہہ دیا تھا۔۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ میں خودی سب پتا کر لونگا۔۔اور اسکا سارا پراسیس بھی خودی دیکھ لونگا۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔نانو نے اسے تسلی دی۔۔۔ تھنکس نانو۔۔۔ تھنکس میرا نہیں بلکہ شازل کا کرنا۔۔۔ایک دو گھنٹے میں وہ آجاۓ گا۔۔۔خانسامہ سے کہو اس کے لیے کچھ اچھا سہ بنا دے۔۔۔کہتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ آپ کہا جا رہی ہیں۔۔؟؟ہانیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔ میرے سر میں درد ہو رہا ہے میں اپنے روم میں جا رہی ہوں۔۔۔اسے خود کھانے کا پوچھ لینا۔۔۔ نانو اگر میں خود کچھ بنالوں۔۔۔؟؟ ہاں میری بچی تمہارا اپنا گھر ہے جو دل چاہے بناؤ۔۔۔بس دھیان سے کرنا پاکیزہ نے مجھے بتایا تھا وہ تمہیں کچن میں جانے نہیں دیتی۔۔۔ نانو وہ تو ایسے ہی ڈرتی ہیں۔۔بھلا میں کوئی بچی ہوں جو وہ اتنا ڈرتی ہیں کہ میں جل جاؤں گی۔۔۔ہانیہ معصومیت سے بولی۔۔۔ بیٹا وہ تم سے بہت پیار کرتی ہے اسلیے وہ احتیاط کرتی ہے۔۔۔ چلے نانو وہ آجاۓ گئے اسلیے میں کچن میں جارہی ہوں کہتے ہوئے کچن کی طرف بھاگی۔۔۔ اللہ‎ تمہیں ڈھیروں خوشیاں دے نانو نے دل سے دعا دی۔۔۔


ہانیہ بی بی آپ کیوں کچن میں آئی ہیں۔۔۔بڑی بیگم صاحبہ مجھ ڈانٹے گی۔۔۔زرینہ نے کہا۔۔۔ ارے میں نانو سے پوچھ کر آئی ہوں اس لیے آپ فکر مت کریں وہ آپ کو کچھ نہیں کہے گی۔۔آپ مجھے بتائیں شازل رات کو کیا کھانا پسند کرتے ہیں۔۔۔ شازل صاحب تو رات کو کم ہی کچھ کھاتے ہیں۔۔۔ویسے انہیں پاستا بہت پسند ہے۔۔۔ اچھا چلے مجھے پھر آپ پاستا کا سامان بتا دے میں ان کے لیے خود بناؤنگی۔۔۔ہانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ جی ٹھیک ہے ہانیہ بی بی۔۔۔ کچھ دیر بعد زرینہ نے پاستا کا سارا سامان اس کے سامنے رکھا۔۔۔ شکریہ۔۔۔ ہانیہ بی بی جب آپ پہلے آئی تھیں۔۔تو گھر میں کتنی رونق ہوا کرتی تھی۔۔۔آپ اور شازل صاحب کتنا تنگ کیا کرتے تھے ایک دوسرے کو ۔۔۔آپ کے جانے کے بعد تو گھر میں رونق ہی نہیں آئی۔۔۔ اب میں دوبارہ آگئی ہوں نہ اب دوبارہ رونق آجاۓ گی۔۔۔آج شازل بھی آئے آجاۓ گے ۔۔۔ہانیہ کی خوشی تو دید نہیں تھی آج اسکی ملاقات شازل سے ہونی تھی۔۔۔جس کا وہ پیچھلے دو سال سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔ابھی وہ اپنے خیالو میں کھوئی ہوئی تھی کہ گھی کے کچھ قطریں اسکے ہاتھ پر گرے جس سے وہ فوراً پیچھے ہوئی۔۔۔ کیا ہوا ہانیہ بی بی۔۔۔زرینہ گھبرا کر اسکی طرف لپکی۔۔۔کچھ نہیں بس وہ ہاتھ پر گھی گر گیا۔۔۔ہانیہ ہاتھ کو سہلاتے ہوۓ بولی۔۔۔جو گرم گھی گرنے کی وجہ سے اب تک سرخ ہو چکا تھا۔۔۔ آپ جاۓ میں دیکھ لونگی۔۔۔۔بلکہ آپ روکے میں فرسٹ ایڈ باکس لے کر آتی ہوں۔۔۔ نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کیجیے بس آپ یہ دیکھ لیں پلیز۔۔۔کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔ ابھی وہ اپنے روم کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ اسکی نظر آنے والے شخص پر پڑی۔۔۔اور ہانیہ کے قدم وہی جم گئے۔۔۔وہ شازل تھا ایک پل نہیں لگا تھا اسے پہچاننے میں۔۔۔وہی دراز قد بھوری آنکھیں ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی گوری رنگت ہانیہ کو فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ دو سال پہلے زیادہ پیارا تھا یا اب۔۔۔ہانیہ سر جھٹک کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ کیسے ہیں آپ۔۔۔؟؟ہانیہ نے جھجکتے ہوۓ پوچھا۔۔۔اسے وہ والا شازل نہیں لگا تھے جس سے وہ دو سال پہلے ملی تھی۔۔۔اسکے چہرے میں وہ سنجیدگی تھی جو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔ وہ جو اس پر سرسری سی نگاہ ڈال کر اپنے کمرے کی طرف جانے ہی والا تھا اسکے حال پوچھنے پر روکا۔۔۔ ٹھیک ہوں۔۔۔شازل نے مختصر جواب دیا۔۔جیسے وہ اس سے بات ہی نہ کرنا چاہتا ہو۔۔۔ میرا حال نہیں پوچھے گے۔۔۔؟؟ہانیہ نے سوالیہ نظرو سے اسے دیکھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیوں۔۔؟؟ مجھے لگتا ہے تم ٹھیک ہو۔۔۔اسلیے پوچھنا مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔اسکے انداز میں بھر پورسنجیدگی تھی۔۔۔ شازل کے جواب پر ہانیہ طنزیہ مسکرا دی۔۔۔اسے امید نہیں تھی وہ اس قدر بے رخی سے جواب دے گا۔۔۔ وہ نانو کہہ رہی تھیں آپ سے کھانے کا پوچھ لوں۔۔۔؟؟ہانیہ اس کی بات کونظر انداز کرتی ہوئی بولی۔۔۔ نانو سے کہنامیرا کھانا مت لگاۓ میں کھا کر آیا ہوں۔۔۔اور کچھ تھکا ہوں اسلیے مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کریں۔۔۔اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔پھر کچھ یاد آنے پر وہی روکا پر مڑا نہیں۔۔۔ ہانیہ کو اس کے ایک دم روکنے پر حیرانگی ہوئی تھی۔۔۔ پہلے سے زیادہ کمزور ہوگئی ہو۔۔۔اور کچن کا کام دھیان سے کیا کرو۔۔۔ہاتھ پے نشان کافی گہرا آیا ہے اس پر کچھ لگا لینا۔۔۔ کہتے ہوۓ روم میں چلا گیا۔۔۔ اور ہانیہ کا تو اسکی بات پر منہ کھولا کا کھولا رہ گیا۔۔۔شازل نے اسکے ہاتھ پر جلے کا نشان بھی دیکھ لیا۔۔۔اور اسے لگا تھا وہ اس سے نظر چرا کر بات کر رہا ہے۔۔۔ ❤❤❤❤❤❤

   0
0 Comments